یہ ایک بات سمجھنے میں رات ہو گئی ہےمیں اس سے جیت گیا ہوں کہ مات ہو گئی ہےمیں اب کے سال پرندوں کا دن مناؤں گامری قریب کے جنگل سے بات ہو گئی ہےبچھڑ کے تجھ سے نہ خوش رہ سکوں گا سوچا تھاتری جدائی ہی وجہ نشاط ہو گئی ہےبدن میں ایک طرف دن طلوع میں نے کیابدن کے دوسرے حصے میں رات ہو گئی ہےمیں جنگلوں کی طرف چل پڑا ہوں چھوڑ کے گھریہ کیا کہ گھر کی اداسی بھی ساتھ ہو گئی ہےرہے گا یاد مدینے سے واپسی کا سفرمیں نظم لکھنے لگا تھا کہ نعت ہو گئی ہے