اک ترا ہجر دائمی ہے مجھےورنہ ہر چیز عارضی ہے مجھےایک سایہ مرے تعاقب میںایک آواز ڈھونڈتی ہے مجھےمیری آنکھوں پہ دو مقدس ہاتھیہ اندھیرا بھی روشنی ہے مجھےمیں سخن میں ہوں اس جگہ کہ جہاںسانس لینا بھی شاعری ہے مجھےان پرندوں سے بولنا سیکھاپیڑ سے خامشی ملی ہے مجھےمیں اسے کب کا بھول بھال چکازندگی ہے کہ رو رہی ہے مجھےمیں کہ کاغذ کی ایک کشتی ہوںپہلی بارش ہی آخری ہے مجھے