اس کے ہاتھوں سے جو خوشبوئے حنا آتی ہےایسا لگتا ہے کہ جنت سے ہوا آتی ہےچومنے دار کو کس دھج سے چلا ہے کوئیآج کس ناز سے مقتل میں قضا آتی ہےنہ کبھی کوئی کرے تجھ سے ترے جیسا سلوکہاتھ اٹھتے ہی یہی لب پہ دعا آتی ہےتیرے غم کو یہ برہنہ نہیں رہنے دیتیمیری آنکھوں پہ جو اشکوں کی ردا آتی ہےاس کے چہرے کی تمازت بھی ہے شامل اس میںآج تپتی ہوئی ساون کی گھٹا آتی ہےگھومنے جب بھی ترے شہر میں جاتی ہے وفابین کرتی ہوئی واپس وہ سدا آتی ہےہے وہی بات ہر اک لب پہ بہت عام یہاںہم سے جو کہتے ہوئے ان کو حیا آتی ہے