نہ نیند اور نہ خوابوں سے آنکھ بھرنی ہےکہ اس سے ہم نے تجھے دیکھنے کی کرنی ہےکسی درخت کی حدت میں دن گزارنا ہےکسی چراغ کی چھاؤں میں رات کرنی ہےوہ پھول اور کسی شاخ پر نہیں کھلناوہ زلف صرف مرے ہاتھ سے سنورنی ہےتمام ناخدا ساحل سے دور ہو جائیںسمندروں سے اکیلے میں بات کرنی ہےہمارے گاؤں کا ہر پھول مرنے والا ہےاب اس گلی سے وہ خوشبو نہیں گزرنی ہےترے زیاں پہ میں اپنا زیاں نہ کر بیٹھوںکہ مجھ مرید کا مرشد اویسؔ قرنی ہے