قدم رکھتا ہے جب رستوں پہ یار آہستہ آہستہ

قدم رکھتا ہے جب رستوں پہ یار آہستہ آہستہ

تو چھٹ جاتا ہے سب گرد و غبار آہستہ آہستہ

بھری آنکھوں سے ہو کے دل میں جانا سہل تھوڑی ہے

چڑھے دریاؤں کو کرتے ہیں پار آہستہ آہستہ

نظر آتا ہے تو یوں دیکھتا جاتا ہوں میں اس کو

کہ چل پڑتا ہے جیسے کاروبار آہستہ آہستہ

ادھر کچھ عورتیں دروازوں پر دوڑی ہوئی آئیں

ادھر گھوڑوں سے اترے شہسوار آہستہ آہستہ

کسی دن کارخانۂ غزل میں کام نکلے گا

پلٹ آئیں گے سب بے روزگار آہستہ آہستہ

ترا پیکر خدا نے بھی تو فرصت میں بنایا تھا

بنائے گا ترے زیور سنار آہستہ آہستہ

مری گوشہ نشینی ایک دن بازار دیکھے گی

ضرورت کر رہی ہے بے قرار آہستہ آہستہ
Muhammad Sufian Amjad

Created dozens of Graphic designs within the last 8 years including logos, Banners, and editing of pictures. Clients include in 3D Design. facebook instagram youtube twitter pinterest

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی