کچھ ضرورت سے کم کیا گیا ہےتیرے جانے کا غم کیا گیا ہےتا قیامت ہرے بھرے رہیں گےان درختوں پہ دم کیا گیا ہےاس لیے روشنی میں ٹھنڈک ہےکچھ چراغوں کو نم کیا گیا ہےکیا یہ کم ہے کہ آخری بوسہاس جبیں پر رقم کیا گیا ہےپانیوں کو بھی خواب آنے لگےاشک دریا میں ضم کیا گیا ہےان کی آنکھوں کا تذکرہ کر کےمیری آنکھوں کو نم کیا گیا ہےدھول میں اٹ گئے ہیں سارے غزالاتنی شدت سے رم کیا گیا ہے