چیختے ہیں در و دیوار نہیں ہوتا میںآنکھ کھلنے پہ بھی بیدار نہیں ہوتا میںخواب کرنا ہو سفر کرنا ہو یا رونا ہومجھ میں خوبی ہے بیزار نہیں ہوتا میںاب بھلا اپنے لیے بننا سنورنا کیساخود سے ملنا ہو تو تیار نہیں ہوتا میںکون آئے گا بھلا میری عیادت کے لئےبس اسی خوف سے بیمار نہیں ہوتا میںمنزل عشق پہ نکلا تو کہا رستے نےہر کسی کے لئے ہموار نہیں ہوتا میںتیری تصویر سے تسکین نہیں ہوتی مجھےتیری آواز سے سرشار نہیں ہوتا میںلوگ کہتے ہیں میں بارش کی طرح ہوں حافیؔاکثر اوقات لگاتار نہیں ہوتا میں