اک حویلی ہوں اس کا در بھی ہوںخود ہی آنگن خود ہی شجر بھی ہوںاپنی مستی میں بہتا دریا ہوںمیں کنارہ بھی ہوں بھنور بھی ہوںآسماں اور زمیں کی وسعت دیکھمیں ادھر بھی ہوں اور ادھر بھی ہوںخود ہی میں خود کو لکھ رہا ہوں خطاور میں اپنا نامہ بر بھی ہوںداستاں ہوں میں اک طویل مگرتو جو سن لے تو مختصر بھی ہوںایک پھل دار پیڑ ہوں لیکنوقت آنے پہ بے ثمر بھی ہوں