دل محبت میں مبتلا ہو جائے

دل محبت میں مبتلا ہو جائے

جو ابھی تک نہ ہو سکا ہو جائے

تجھ میں یہ عیب ہے کہ خوبی ہے

جو تجھے دیکھ لے ترا ہو جائے

خود کو ایسی جگہ چھپایا ہے

کوئی ڈھونڈھے تو لاپتا ہو جائے

میں تجھے چھوڑ کر چلا جاؤں

سایا دیوار سے جدا ہو جائے

بس وہ اتنا کہے مجھے تم سے

اور پھر کال منقطع ہو جائے

دل بھی کیسا درخت ہے حافیؔ

جو تری یاد سے ہرا ہو جائے

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی