بچھڑ کر اس کا دل لگ بھی گیا تو کیا لگے گا

بچھڑ کر اس کا دل لگ بھی گیا تو کیا لگے گا

وو تھک جائے گا اور میرے گلے سے آ لگے گا

میں مشکل میں تمہارے کام آؤں یا نہ آؤں

مجھے آواز دے لینا تمہیں اچھا لگے گا

میں جس کوشش سے اس کو بھول جانے میں لگا ہوں

زیادہ بھی اگر لگ جائے تو ہفتہ لگے گا

مرے ہاتھوں سے لگ کر پھول مٹی ہو رہے ہیں

مری آنکھوں سے دریا دیکھنا صحرا لگے گا

مرا دشمن سنا ہے کل سے بھوکا لڑ رہا ہے

یہ پہلا تیر اس کو ناشتے میں جا لگے گا

کئی دن اس کے بھی صحراؤں میں گزرے ہیں حافیؔ

سو اس نسبت سے آئینہ ہمارا کیا لگے گا

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی