اشک ضائع ہو رہے تھے دیکھ کر روتا نہ تھا

اشک ضائع ہو رہے تھے دیکھ کر روتا نہ تھا

جس جگہ بنتا تھا رونا میں ادھر روتا نہ تھا

صرف تیری چپ نے میرے گال گیلے کر دئے

میں تو وہ ہوں جو کسی کی موت پر روتا نہ تھا

مجھ پہ کتنے سانحے گزرے پر ان آنکھوں کو کیا

میرا دکھ یہ ہے کہ میرا ہم سفر روتا نہ تھا

میں نے اس کے وصل میں بھی ہجر کاٹا ہے کہیں

وہ مرے کاندھے پہ رکھ لیتا تھا سر روتا نہ تھا

پیار تو پہلے بھی اس سے تھا مگر اتنا نہیں

تب میں اس کو چھو تو لیتا تھا مگر روتا نہ تھا

گریہ و زاری کو بھی اک خاص موسم چاہیے

میری آنکھیں دیکھ لو میں وقت پر روتا نہ تھا

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی