عجیب خواب تھا اس کے بدن میں کائی تھیوہ اک پری جو مجھے سبز کرنے آئی تھیوہ اک چراغ کدہ جس میں کچھ نہیں تھا مراجو جل رہی تھی وہ قندیل بھی پرائی تھینہ جانے کتنے پرندوں نے اس میں شرکت کیکل ایک پیڑ کی تقریب رو نمائی تھیہواؤ آؤ مرے گاؤں کی طرف دیکھوجہاں یہ ریت ہے پہلے یہاں ترائی تھیکسی سپاہ نے خیمے لگا دیے ہیں وہاںجہاں پہ میں نے نشانی تری دبائی تھیگلے ملا تھا کبھی دکھ بھرے دسمبر سےمرے وجود کے اندر بھی دھند چھائی تھی