ابھی تو عشق میں ایسا بھی حال ہونا ہے

ابھی تو عشق میں ایسا بھی حال ہونا ہے

کہ اشک روکنا تم سے محال ہونا ہے

ہر ایک لب پہ ہے میری وفا کے افسانے

ترے ستم کو ابھی لا زوال ہونا ہے

بجا کہ خواب ہیں لیکن بہار کی رت میں

یہ طے ہے کہ اب کے ہمیں بھی نہال ہونا ہے

تمہیں خبر ہی نہیں تم تو لوٹ جاؤ گے

تمہارے ہجر میں لمحہ بھی سال ہونا ہے

ہماری روح پہ جب بھی عذاب اتریں گے

تمہاری یاد کو اس دل کو ڈھال ہونا ہے

کبھی تو روئے گا وہ بھی کسی کی بانہوں میں

کبھی تو اس کی ہنسی کو زوال ہونا ہے

ملیں گی ہم کو بھی اپنے نصیب کی خوشیاں

بس انتظار ہے کب یہ کمال ہونا ہے

ہر ایک شخص چلے گا ہماری راہوں پر

محبتوں میں ہمیں وہ مثال ہونا ہے

زمانہ جس کے خم و پیچ میں الجھ جائے

ہماری ذات کو ایسا سوال ہونا ہے

وصیؔ یقین ہے مجھ کو وہ لوٹ آئے گا

اسے بھی اپنے کئے کا ملال ہونا ہے

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی