عطا ان کی وراثت ہے سخا ان کی وراثت ہے

 

عطا ان کی وراثت ہے سخا ان کی وراثت ہے
علی کے ہیں یہ گھر والے وفا ان کی وراثت ہے

یہ پتھر مارنے والوں سے بھی بدلا نہیں لیتے
کرم ان کی وراثت ہے دُعا ان کی وراثت ہے

یہ شب ہے خادمہ ان کی سویرا ان کا نوکر ہے
یہ جب چاہیں اثر کر دیں ضیا ان کی وراثت ہے

نہ دو اے کُوفیو تعنہ کہ بارش مانگ لو رب سے
یہ چاہیں تو ابھی برسیں گھٹا ان کی وراثت ہے

وہ ہستی وہ خدیجہ کی وہ زھرہ ہو کہ زینب ہو
گواہ قُدسی ہیں اے لوگو حیا ان کی وراثت ہے

چلو تُم ہوزِ کوثر پر یا جنت کے باغینچوں میں
طلب ہے جس جگہ کی وہ جگہ ان کی وراثت ہے

نہیں تُم جانتے حاکم کہ کیا جاگیر ان کی ہے
ستارے ہیں گواہ عرض و سما ان کی وراثت ہے

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی