آج کی رات ضیاؤں کی ہے بارات کی رات
فضلِ نوشاہِ دو عالم کے بیانات کی راتشب معراج وہ اَوْحیٰ کے اشارات کی رات
کون سمجھائے وہ کیسی تھی مناجات کی راتچھائی رہتی ہیں خیالوں میں تمہاری زلفیں
کوئی موسم ہو یہاں رہتی ہے برسات کی راترِند پیتے ہیں تری زلف کے سائے میں سدا
کوئی موسم ہو یہاں رہتی ہے برسات کی راترخِ تابانِ نبی زلف معنبر پہ فدا
روز تابندہ یہ مستی بھری برسات کی راتدل کا ہر داغ چمکتا ہے قمر کی صورت
کتنی روشن ہے رُخِ شہ کے خیالات کی راتہر شب ہجر لگی رہتی ہے اشکوں کی جھڑی
کوئی موسم ہو یہاں رہتی ہے برسات کی راتجس کی تنہائی میں وہ شمع شبستانی ہو
رشک صد بزم ہے اس رِند خرابات کی راتبلبل باغِ مدینہ کو سنادے اخترؔ
آج کی شب ہے فرشتوں سے مباہات کی رات
ٹیگز:
Naat Lyrics