زخموں نے مجھ میں دروازے کھولے ہیں

زخموں نے مجھ میں دروازے کھولے ہیں

میں نے وقت سے پہلے ٹانکے کھولے ہیں

باہر آنے کی بھی سکت نہیں ہم میں

تو نے کس موسم میں پنجرے کھولے ہیں

برسوں سے آوازیں جمتی جاتی تھیں

خاموشی نے کان کے پردے کھولے ہیں

کون ہماری پیاس پہ ڈاکا ڈال گیا

کس نے مشکیزوں کے تسمے کھولے ہیں

ورنہ دھوپ کا پربت کس سے کٹتا تھا

اس نے چھتری کھول کے رستے کھولے ہیں

یہ میرا پہلا رمضان تھا اس کے بغیر

مت پوچھو کس منہ سے روزے کھولے ہیں

یوں تو مجھ کو کتنے خط موصول ہوئے

اک دو ایسے تھے جو دل سے کھولے ہیں

منت ماننے والوں کو معلوم نہیں

کس نے آ کر پیڑ سے دھاگے کھولے ہیں

دریا بند کیا ہے کوزے میں تہذیبؔ

اک چابی سے سارے تالے کھولے ہیں

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی