سختیاں کرتا ہوں دل پر غیر سے غافل ہوں میںہائے کیا اچھی کہی ظالم ہوں میں جاہل ہوں میںمیں جبھی تک تھا کہ تیری جلوہ پیرائی نہ تھیجو نمود حق سے مٹ جاتا ہے وہ باطل ہوں میںعلم کے دریا سے نکلے غوطہ زن گوہر بدستوائے محرومی خذف چین لب ساحل ہوں میںہے مری ذلت ہی کچھ میری شرافت کی دلیلجس کی غفلت کو ملک روتے ہیں وہ غافل ہوں میںبزم ہستی اپنی آرائش پہ تو نازاں نہ ہوتو تو اک تصویر ہے محفل کی اور محفل ہوں میںڈھونڈھتا پھرتا ہوں میں اقبالؔ اپنے آپ کوآپ ہی گویا مسافر آپ ہی منزل ہوں میں