نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھیمگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھیتمہارے پیامی نے سب راز کھولاخطا اس میں بندے کی سرکار کیا تھیبھری بزم میں اپنے عاشق کو تاڑاتری آنکھ مستی میں ہشیار کیا تھیتأمل تو تھا ان کو آنے میں قاصدمگر یہ بتا طرز انکار کیا تھیکھنچے خود بخود جانب طور موسیٰکشش تیری اے شوق دیدار کیا تھیکہیں ذکر رہتا ہے اقبالؔ تیرافسوں تھا کوئی تیری گفتار کیا تھی