اس ایک ڈر سے خواب دیکھتا نہیں

اس ایک ڈر سے خواب دیکھتا نہیں

میں جو بھی دیکھتا ہوں بھولتا نہیں

کسی منڈیر پر کوئی دیا جلا

پھر اس کے بعد کیا ہوا پتا نہیں

ابھی سے ہاتھ کانپنے لگے مرے

ابھی تو میں نے وہ بدن چھوا نہیں

میں آ رہا تھا راستے میں پھول تھے

میں جا رہا ہوں کوئی روکتا نہیں

تری طرف چلے تو عمر کٹ گئی

یہ اور بات راستہ کٹا نہیں

میں راہ سے بھٹک گیا تو کیا ہوا

چراغ میرے ہاتھ میں تو تھا نہیں

میں ان دنوں ہوں خود سے اتنا بے خبر

میں مر چکا ہوں اور مجھے پتا نہیں

اس اژدہے کی آنکھ پوچھتی رہی

کسی کو خوف آ رہا ہے یا نہیں

یہ عشق بھی عجب کہ ایک شخص سے

مجھے لگا کہ ہو گیا ہوا نہیں

خدا کرے وہ پیڑ خیریت سے ہو

کئی دنوں سے اس کا رابطہ نہیں

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی