دکھ درد کے ماروں سے مرا ذکر نہ کرنا

دکھ درد کے ماروں سے مرا ذکر نہ کرنا

گھر جاؤ تو یاروں سے مرا ذکر نہ کرنا

وہ ضبط نہ کر پائیں گی آنکھوں کے سمندر

تم راہ گزاروں سے مرا ذکر نہ کرنا

پھولوں کے نشیمن میں رہا ہوں میں سدا سے

دیکھو کبھی خاروں سے مرا ذکر نہ کرنا

شاید یہ اندھیرے ہی مجھے راہ دکھائیں

اب چاند ستاروں سے مرا ذکر نہ کرنا

وہ میری کہانی کو غلط رنگ نہ دے دیں

افسانہ نگاروں سے مرا ذکر نہ کرنا

شاید وہ مرے حال پہ بے ساختہ رو دیں

اس بار بہاروں سے مرا ذکر نہ کرنا

لے جائیں گے گہرائی میں تم کو بھی بہا کر

دریا کے کناروں سے مرا ذکر نہ کرنا

وہ شخص ملے تو اسے ہر بات بتانا

تم صرف اشاروں سے مرا ذکر نہ کرنا

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی