کسے خبر ہے کہ عمر بس اس پہ غور کرنے میں کٹ رہی ہےکہ یہ اداسی ہمارے جسموں سے کس خوشی میں لپٹ رہی ہےعجیب دکھ ہے ہم اس کے ہو کر بھی اس کو چھونے سے ڈر رہے ہیںعجیب دکھ ہے ہمارے حصے کی آگ اوروں میں بٹ رہی ہےمیں اس کو ہر روز بس یہی ایک جھوٹ سننے کو فون کرتاسنو یہاں کوئی مسئلہ ہے تمہاری آواز کٹ رہی ہےمجھ ایسے پیڑوں کے سوکھنے اور سبز ہونے سے کیا کسی کویہ بیل شاید کسی مصیبت میں ہے جو مجھ سے لپٹ رہی ہےیہ وقت آنے پہ اپنی اولاد اپنے اجداد بیچ دے گیجو فوج دشمن کو اپنا سالار گروی رکھ کر پلٹ رہی ہےسو اس تعلق میں جو غلط فہمیاں تھیں اب دور ہو رہی ہیںرکی ہوئی گاڑیوں کے چلنے کا وقت ہے دھندھ چھٹ رہی ہے