ابھی تو لوٹا ہوں انکے در سے ابھی سے دل بیقرار کیوں ہے
ابھی تو ہر سو ہیں انکے جلوے ابھی ہجر کا شمار کیوں ہےطوافِ کعبہ کی گہما گہمی سرور طیبہ کے رت جگوں کا
ابھی تو یادوں کے گل ہیں تازہ ابھی زوالِ بہار کیوں ہےمدینے والے کی رحمتوں کے عرش کے والی کی بخششوں کے
ابھی تو ساغر چھلک رہے ہیں ابھی سے اترا خمار کیوں ہےابھی تو سانسوں میں موجزن ہے مہک مدینے کے بام و در کی
ابھی کیوں آنسو چھلک رہے ہیں ابھی سے خوں میں فشار کیوں ہےابھی نہ آنکھوں سے خون برسا ابھی تو محبوؔب کچھ صبر کر
ابھی تو گنتی کے دن ہیں گزرے ابھی سے اختر شمار کیوں ہے
ٹیگز:
Naat Lyrics