آج اشک میرے نعت سنائے تو عجب کیا ہے
سنکر وہ مجھے پاس بلائے تو عجب کیا ہےاُن پر تو گنہگار کا سب حال کھلا ہے
اس پر بھی وہ دامن میں چھپائے تو عجب کیا ہےمنہ ڈھانپ کے رکھنا کے گُنہگار بہت ہے
میت کو میری دیکھنے آئیں تو عجب کیا ہےنا زادِ سفر ہے نہ کوئی کام بھلے ہیں
پھِر بہی ہمیں سرکار ب بلائیں تو عجب کیا ہےدیدار کے قابل تو کہاں میری نظر ہے
لیکن وہ کبھی خواب میں آئیں تو عجب کیا ہےیہ نسبتِ شاہ مدنی اور یہ آنسُو
محشر میں ایک غم سے شورائے تو عجب کیا ہےمیں ایسا خطاوار ہوں کُچھ حد بھی نہی جِسکی
پھِر بھی میرے عیبوں کو چھپائیں تو عجب کیا ہےپابندِ نوا تو نہیں فریاد کی رسمیں
آنسُو ہی میرا حال سنائے تو عجب کیا ہےحاصل جنہیں آقا کی غلامی کا شرف ہے
ٹھوکر سے وہ مردے کو جلائیں تو عجب کیا ہےوہ حُسنِ دو عالم ہیں ادیب اُنکے قدم سے
صحرا میں اگر پھول کہلائیں تو عجب کیا ہے
ٹیگز:
Naat Lyrics