خود سے تو آئے نہ تھے اہل زمیں سنتا ہےکیوں انہیں بھیج کے اب ان کی نہیں سنتا ہےیہ اگر سچ ہے تو پھر آج اسے ثابت کرکہ سنا ہے تو سر عرش بریں سنتا ہےوہ جو سنتا نہیں تیری تو گلا کیسا ہےتو بھی کب اس کی مرے خاک نشیں سنتا ہےبگڑے بچے کی طرح شور مچائے جائےیہ مرا دل کہ کسی کی بھی نہیں سنتا ہےحسن کے حسن تغافل سے پریشان نہ ہوغور سے بات کہاں کوئی حسیں سنتا ہےبھوک افلاس دغا جرم کی بہتات وصیؔپھر بھی لگتا ہے تجھے کوئی کہیں سنتا ہے